(ایجنسیز)
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال اکثر وقت گزاری اور تفریح کی کی حدوں سے نکل کر عادت اور لت بن جاتا ہے۔
اگرچہ سوشل ویب سائٹس سے مسلسل ناتا جوڑے رکھنے اور ان سائٹس کے بغیر رہ نہ پانے کے چلن کو محاورے کی زبان میں لت کہا جاتا ہے، مگر تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ یوزرز کی ایک بڑی تعداد کے لیے سوشل ویب سائٹس کا استعمال واقعتاً نشہ بن جاتا ہے۔ امریکا کی مشہور زمانہ ہارورڈ یونی ورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق جب ایک یوزر کوئی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے، تو اس دوران اس کے دماغ کا ایک خاص حصہ nucleus accumbens متحرک ہوجاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہی حصہ ہے جو کوئی نشہ، جیسے کوکین استعمال کرتے ہوئے متحرک ہوتا ہے۔
گویا ہیروئن یا کسی اور نشے کی طرح سوشل میڈیا بھی ایک نشہ ہے اور یوزر اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے بہ جائے اس کی گرفت میں آجاتا اور اس کے زیراثر ہوجاتا ہے۔
Behavioral Sciences کی دنیا کے مشہور نام امریکا سے تعلق رکھنے والے دانشور ڈاکٹر مائیکل آر مینٹیل گذشتہ دنوں تحریر کردہ اپنے بلاگ میں سوشل میڈیا کے یوزرز کے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ خود اپنا ٹیسٹ یا تجزیہ کریں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرتے ہوئے وہ عامل رہتے ہیں یا معمول بن جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مائیکل آرمینٹیل انسانی رویوں سے متعلق سائنس کے پروفیسر ہیں اور اس حوالے سے بیسٹ سیلر کا درجہ پانے والی کتب کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹر مائیکل آرمینٹیل اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے متعلق انھیں استعمال کرنے والوں کا چلن دراصل ’’متلاشی رویہ‘‘ کا شاخسانہ ہوتا ہے، یعنی یہ یوزرز یہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ ’’کس کو میری ضرورت ہے۔‘‘ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر مائیکل کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بالغ افراد میں سے 72 فی صد جو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرتے ہیں، وہ سوشل ویب سائٹس پر ایک ہفتے میں 23 گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ یہ دورانیہ پورے ہفتے کے مجموعی وقت کا 14 فی صد بنتا ہے۔ سوشل میڈیا سے حد اور توازن سے بڑھی ہوئی اس وابستگی کو ڈاکٹر مائیکل ’’SO ME‘‘ کا نام دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ رویہ درحقیقت ’’سوشل‘‘ ہونا یا گھلنا ملنا نہیں ہے۔
ڈاکٹر مائیکل سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال میں حد سے بڑھے ہوئے یا اسے لت بنالینے والوں کو ’’SO ME یوزرز‘‘ کہتے ہیں۔ اپنے حاصل کردہ اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ
’’سو می‘‘ یوزرز میں سے اڑتیس فی صد نیند سے بیدار ہونے کے فوری بعد کوئی بھی دوسرا کام کرنے اور اپنا ای میل باکس چیک کرنے سے بھی پہلے اپنی مخصوص سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر لاگ آن ہوکر اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یونی ورسٹی آف سیل فورڈ کے ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق ’’سو می یوزرز‘‘ میں سے پچاس فی صد کا کہنا ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال نے ان کی زندگی عذاب کردی ہے۔
ڈاکٹر مائیکل کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کی لت نے اس لت مین مبتلا افراد کی قوت برداشت کو گھٹا دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ ذرا سی بے چینی اور پھیکاپن بھی برداشت نہیں کرپاتے۔ دراصل یہ یوزرز اپنی سائٹ پر اپنے لیے پوری توجہ چاہتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر رہتے ہوئے ان کے ذہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہتے ہیں،’’کی میں ٹھیک ہوں؟‘‘،’’کیا میں پُرکشش ہوں،‘‘،’’کیا لوگ مجھے پسند کرتے ہیں؟‘‘ اور’’میرے کتنے دوست (فرینڈلسٹ میں) ہیں؟‘‘ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات ان ’’سو می یوزرز‘‘ کو پریشان اور مضطرب رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مائیکل یوزرز کے اس رویے اور رجحان کو بدلنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت ہے کہ ’’SOcial MEdia ‘‘ کو ’’SOcial WEdia‘‘ میں تبدیل کردیا جائے، یعنی یوزرز ’’ME (میں)‘‘ کو ’’WE (ہم)‘‘ سے تبدیل کرلیں۔ گویا وہ یوزرز سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انفرادی سوچ ترک کرکے اجتماعی سوچ اپنائیں اور اسی بنیاد پر اپنے رویوں کی تشکیل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کا حل توازن ہی ہے۔
اپنے بلاگ میں ڈاکٹر مائیکل نے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے یوزرز کے لیے کچھ سوالات دیے ہیں، جن کا جواب خود سے معلوم کرکے ہر یوزر جان سکتا ہے کہ وہ سوشل ویب سائٹس کی لت میں مبتلا ہے یا ان سائٹس سے اس کی وابستگی صحت مند رجحان کی حامل اور بامقصد ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں:
٭سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے آپ کا بنیادی مقصد کیا ہوتا ہے؟
٭کیا آپ سوشل (میڈیا) ٹیکنالوجی کا شکار ہیں؟ یہ آپ کو کیسے استعمال کرتی ہے؟
٭اگر ایسا ہے (یعنی آپ سوشل میڈیا کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں) تو آپ کو اس کے استعمال کی کیا ضرورت ہے؟
٭سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو آپ کو اس کا استعمال انفرادی کے بہ جائے اجتماعیت میں ڈھالنے سے روکتی ہیں؟
ہمیں بہ طور سوشل میڈیا یوزر ڈاکٹر مائیکل کے ان سوالات کا جواب اپنے آپ سے معلوم کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ ہم سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کررہے ہیں یا ان کے ہاتھوں استعمال ہوکر اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں؟